اقبال بارگاہ رومی میں
آج تک کسی شناس نے اس بات کی نشاندہی نہیں کی کہ اقبال سب سے پہلے مولانا رومی سے کب متائثرہوئے۔ انہوں نے اپنے متعدد اشعار میں ” پیر رومی” اور ” مرشد رومی” کے
خطابات سے مولانا روم کو یاد کیا ہے ، ان کی عظمت کا اعتراف کیا ہے اور ان کی تعلیمات سے استفادہ کی تلقین کی ہے ۔ اقبال ؒنے پیر رومی کی صحبت سے جو فیض پایا اس کے
بارے میں کچھ یوں رقمطراز ہیں:۔
صحبت پیر روم سے مجھ پہ ہوا یہ راز فاش
لاکھ حکیم سربجیب ، ایک کلیم سر بکف
علامہ صاحب ؒ سب سے پہلے 1899ء-1900ء میں مولاناروم ؒ سے متائثر ہوئے اس کا ثبوت ان کے مندرجہ ذیل قطعات ہیں ۔ اس سے قبل علامہ صاحب کی کوئی تحریر نہیں ملتی
جو ان کے اور مولانا رومؒ کے تعلق پر روشنی ڈالتی ہو۔
خان بہادر پیرزادہ محمد حسین ایم-اے سیشن جج ، سی-آئی-ای نے مثنوی مولانا روم کی چھیانوے حکایتوں کا منظوم ترجمہ کیا جسے شیخ نذیر حسین و شریف حسین تاجر کتب دہلی نے (
رحمانی پریس دہلی ) 1900 ء میں زیور طبع سے آراستہ کیا ۔ پیر زادہ صاحب علامہ صاحب ؒ کے بہت گہرے دوست تھے۔ ان کی فرمائش پر علامہ صاحب ؒ نے ایک نہیں چھ قطعات
تاریخ لکھےجو نہ صرف تاریخ گوئی میں اقبال ؒ کا مقام معین کرنے میں مددگار و معاون ثابت ہوتے ہیں بلکہ رومی ؒ سے والہانہ عقیدت کا اظہار بھی ہوتا ہے:۔(اقبال نامہ حصہ اول
ص37)
مرحبا اے ترجمان مثنوی معنوی ہست ہر شعر تو منظور نگاہ انتخاب
ازپئ نظارہ گلدستہ اشعار تو حسن گویائی زروئے خویش بردارنقاب
بہر سال طبع قرآن زبان پہلوی
بلبل دل می سرآید ” تلک آیات الکتاب
دلہ
میرے مخدوم و مکرم نے لکھی ایسی کتاب شاہد لیلائے عرفاں کا جسے محمل کہیں
ہے مصنف نخل بند گلشن معنی اگر مزرع کشت تمنا کا اسے حاصل کہیں
ازپئے تاریخ ہاتف نے کہا اقبال کو
زیب دیتا ہے اگر “مرغوب اہل دل” کہیں
عقد گوہر
کتاب مولوی معنوی را شفیقے ماچودراردو رقم کرد
زباں رانقش از تیر غفلت مصوں چو طائر بام حرم کرد
سردش دل رقم زد بہر تاریخ
خیابانے زبستان عجم کرد
دلہ
غیرت نظم ثریا ہے یہ نظم دلکش خوبئ قول اسی نظم کی شیدائی ہے
فکر تاریخ میں میں سر بگریباں جو ہوا کہہ دیا دل نے یہ خضر رہ دانائی ہے
عقد گوہر
بزم سخن میں اہل بصیرت کا شور ہے یہ نظم ہے کہ چشم فصاحت کا نور ہے
میں نے کہا یہ دل سے کہ اے مایہ ہنر تاریخ سال طبع کالکھنا ضرور ہے
ہاتف نے دی صدا سراعدا کو کاٹ کر
حقا یہ نظم موج شراب طہور ہے(شاد اقبال ص3 محررہ یکم نومبر 1914)
دلہ
روح فردوس میں رومی کی دعادیتی ہے آپ نے خوب کیا، خوب کہا، خوب لکھا
درد مندان محبت نے اسے پڑھ کے کہا نقش تسخیر پئے طالب و مطلوب لکھا
ہاتف غیب کی امداد سے ہم نے اقبالؒ
بہر تاریخ اشاعت” سخن خوب” لکھا(مکاتیب اقبال بنام نیازالدین خان ص5)
علامہ اقبال صاحب ؒ کے مذکورہ بالا قطعات تاریخ کے علاوہ خان بہادر مولوی محرم علی چشتی اور میر کرامت علی، امرتسری کے قطعات بھی کتاب میں شائع ہوئے۔ (اقبال نامہ حصہ
اول ص 213)کلام اقبال ؒ کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ اقبال ؒ کو قرآن اور حدیث کے بعد اگر کسی چیز سے والہانہ لگاؤہے تووہ مثنوی لانا روم ہے ۔ اقبال ؒ کو مولانا روم ؒ سے عقیدت
ہی نہیں بلکہ ایک غیر فانی اور انمٹ عشق ہے جس کا اظہار نہوں نے اپنی تصنیفات میں جابجا کیا ہے ، وہ مولانا روم کو اپنا پیر مرشد تسلیم کرتے ہیں اور اس تعلق پر انہیں بے حد فخر
ہے ۔ مولانا روم سے علامہ صاحب ؒ کے تعلق اور ربط و ضبط کا اس سے زیادہ بین ثبو ت اور کیا ہو سکتاہے کہ وہ اپنی معرکۃ الآ را اور شہرۂآفاق تصنیف ” مثنوی اسرارو رموز ” کی وجہ تصنیف
،مولانا روم ہی کے ارشادات اور ان کی تعلیما ت کو قرار دیتے ہیں جو انہیں خواب کی حالت میں سنائی دیئے۔
بازبر خوانم زفیض پیر روم دفتر سر بستہ اسرار علوم
جان اور ازشعلہ ہاسرمایہ دار من فروغ یک نفس مثل شرار
شمع سوزاں تاخت بر پروانہ ام بادہ شبخوں ریخت برکاشانہ ام
پیر رومی خاک را اکسیر کرد از غبار جلوہ ہا تعمیر کرد
ذرہ از خاک بیاباں رخت بست تاشعاع آفتاب آرد بدست
موجم و در بحر او منزل کنم تادر تابندۂحاصل کنم
من کہ مستی ہاز صہبایش کنم
زندگانی از نفسہایش کنم
علامہ صاحبؒ نے مختلف مقامات پر مولانا روم کو اپنا خضر اور راہنما بتایا ہے ۔ جس طرح ڈانٹے نے اپنی تصنیف ” ڈیوائن کامیڈی ” میں بہشت اور دوزخ کی سیر کے لئے ورجل کو اپنا
راہنما قراردیاہے ۔اسی طرح اقبال ؒ بھی ” جاوید نامہ ” میں مولانا روم ؒ کو خضرراہ بناکر ہفت افلاک کی سیر کرتے ہیں اور الٰہیات کے بیسیوں دشوار اور پیچیدہ مسائل کا حل انہی سے پوچھتے ہیں ۔
ڈاکٹر اقبال صاحبؒ مسلمانوں کو بھی مولانا روم ؒ کو پیر ، مرشد اور راہنما بنانے کی تلقین کرتے ہیں اور ان کے درد کا مداواانہیں ہی سمجھتے ہیں :
علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کو فسوں
پیر رومی را رفیق را ساز تاخدا بخشد ترا سوزوگداز
زآنکہ رومی مغز را داندزپوست پائے او محکم فتد در کوئے دوست