ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ اور جذبۂ عشق مصطفیٰ
ڈاکٹر صاحب کی حسن سیرت کا سب سے اعلی ٰ اور قابل رشک وصف جذبۂعشق مصطفیٰآپ ؒ کی اس والہانہ عقیدت کا اظہار ان کی چشم نم ناک اور دیدۂ تر سے ہوتا تھاجیسے ہی کسی نے حضورؐ کا آپ کے سامنے نام لیا تو آپ کی طبیعت پر شدت رقت طاری ہوگئی ، اور نینوں سے اشکوں کا جھرنا پھوٹ پڑا۔ بات یہیں پہ ختم نہیں ہوتی اس کے ساتھ ہی آپ پر جذب کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ عشق رسول ؐ کی لذت ڈاکٹر صاحب کی رگ و پے میں اس قدر سرایت تھی کہ گراں قدر عظیم فلسفی ہونے کے باوجود جب اسوۂ رسولؐ ، عزت ِ رسولؐ ، مقامِ مصطفیٰ ؐ، زبانِ مصطفیٰ ؐ کی باری آتی تومعیار عقل کو بالائے تاک رکھتے ہوئے فوراً تسلیم فرمالیتے ۔ اس معاملہ میں وہ ایمان بالغیب کے قائل تھے ۔ بس حضور ؐ کا ہر فرمان ہمیں دل و جان سے زیادہ عزیز ہے اس کی بارگاہ ناز میں کسی حیل و حجت کی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔ یہی نشان ِ غلامی، دلیل ِ ایمان ہے ۔
بہ مصطفیٰ برساں خویش راکہ دیں ہمہ اوست اگر بہ او نہ رسیدی تمام بو لہبی است
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
می ندانی عشق و مستی از کجا ست؟ ایں شعاع آفتاب مصطفی ست
عشق رسول میں عقل کی قربانی
موازنۂ عقل و عشق میں فقیر سید وحید الدین ایک واقعہ زیر قرطاس فرماتے ہیں کہ:
" میرے عزیز دوست محمد محمود ، پی –سی ایس ، جنرل مینیجر سمال انڈسٹریز حکومت مغربی پاکستان کے عہدے پر فائز ہیں 1933 ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ کے طالب علم تھے ۔ ان کا آبائی وطن سیالکوٹ ہے اور وہ شاعر مشرق کے ان خوشہ چینوں میں شامل ہیں جنہیں مرحوم سے بالمشافہ گفتگو کی سعادت حاصل رہی ہے ۔ ایک بار فلسفہ کے دوسرے طلباء کے ہمراہ ڈاکٹر صاحب سے تبادلہ خیال کرنے اور علمی معلومات حاصل کرنے میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں ان کے پاس گئے اور ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں عرض کیا ۔ ہم نے پڑھا ہے کہ حضرت عمر ؓ فرماتے تھے کہ آنحضرت ؐ جب چلتے تھے تو درخت تعظیم سے جھک جاتے ! ہمیں یقین ہے کہ حضرت عمرؓ جھوٹ نہیں بولتے تھے لیکن ہمارا دعویٰ تویہ ہے کہ ہمارا نبی انسانیت کے لئے نمونہ ہے لیکن اگر قدرت کے مظاہر نبی کے لئے مختلف ہوں اور ہمارے لئے مختلف تو پھر نبی نمونہ تو نہیں بن سکتا۔"
ڈاکٹر صاحب نے بلاتامل جواب مرحمت فرمایا۔ " تم بالکل سچ کہتے ہو کہ حضرت عمرؓ جھوٹ نہیں بولتےتھے ۔ بات یہ ہے کہ واقعہ پڑھ کر تمہارا ذہن مختلف راستہ پر منتقل ہوگیاہے ، تم الجھ کے رہ گئے ہو ، قدرت کے مظاہر اور درختوں کے جھکنے میں ۔ بھائی ! یہ واقعہ صرف عمرؓ کا عشق بتاتا ہے کہ ان کی آنکھ یہ دیکھتی تھی کہ درخت جھک رہے ہیں ، اس کا درختوں کے جھکنے کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں !
اگر تمہیں عمرؓ کی آنکھ نصیب ہو تو تم بھی دیکھوگے کہ دنیا ان کے سامنے جھک رہی ہے ۔
عقل انسانی ہے فانی زندۂ جاوید عشق (روزگار فقیر جلد اول ، ص 128، 129)
امت مسلمہ کی روحانی تربیت کیلئے ڈاکٹر صاحب کا نسخہ
آپ ؒنے عید میلادالنبی ؐ کے موقع پر فرمایا:۔
" میرے نزدیک انسانوں کی دماغی اور قلبی تربیت کے لئے نہایت ضروری ہے کہ ان کے عقیدے کی روح سے زندگی کا جو نمونہ بہترین ہو وہ ہر وقت ان کے سامنے رہے ۔ چنانچہ مسلمانوں کے لئے اسی وجہ سے ضروری ہے کہ وہ اسوۂ رسول ؐ کو مد نظر رکھیں تاکہ جذبۂ تقلید اور جذبۂ عمل قائم رہے ۔ ان جذبات کو قائم رکھنے کے لئے تین طریقے ہیں۔
پہلاطریقہ تو درودو صلوٰۃ ہے جو مسلمانوں کی زندگی کا جزو لاینفک ہوچکا ہے ۔ عرب کے متعلق میں نے سنا ہے کہ اگر کہیں بازارمیں دو آدمی لڑپڑتے ہیں اور تیسرا آدمی بآواز بلند اللھم صل علی سیدنا محمد وبارک وسلم پڑھ دیتا ہے تو لڑائی فوراً ختم ہوجاتی ہے ۔ یہ درود کا اثر ہے اور لازم ہے کہ جس پر درود پڑھا جائے اس کی یاد قلوب کے اندر اپنا اثر پیداکرے۔
پہلاطریق انفرادی دوسرا اجتماعی ہے یعنی مسلمان کثیر تعداد میں جمع ہوں اور ایک شخص جو حضور کی سوانح حیات سے پوری طرح آشنا ہو آپ ؐ کی سوانح زندگی بیان کرے تاکہ ان کی تقلید کا ذوق وشوق مسلمانوں کے قلوب میں پیدا ہو۔
تیسرا طریق اگرچہ مشکل ہے لیکن بہر حال اس کا بیان کرنا نہایت ضروری ہے ۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ یاد رسول ؐ اس کثرت اور ایسے انداز میں کی جائے کہ انسان کا قلب نبوت کے مختلف پہلوؤں کا خود مظہر ہوجائے ۔ حضرت مولانا روم ؒ فرماتے ہیں:
آدمی دیدست باقی پوست است دیدآن است آنکہ دید دوست است
یہ جوہر انسانی کا کمال ہے کہ اسے دوست کے سوا کسی چیز کی دید سے مطلب نہ رہے ۔کتابیں پڑھنے یا تقریر سننے سے نہیں آئے گا ، اس کے لئے کچھ مدت نیکوں اور بزرگوں کی صحبت میں بیٹھ کر روحانی انوار حاصل کرنا ضروری ہیں ۔ علماء کا فرض ہے کہ وہ رسول اللہ کے اخلاق ہمارے سامنے پیش کیا کریں تاکہ ہماری زندگی حضورؐ کے اسوۂ حسنہ کی تقلید سے خوشگوار ہوجائے اور اتباع سنت زندگی کی چھوٹی چھوٹی چیزوں تک جاری و ساری ہوجائے ۔ حضرت بایزید بسطامی ؒ کے سامنے خربوزہ لایا گیا توآپ نے کھانے سے انکار کردیا اورکہا:
" کہ مجھے معلوم نہیں رسول ؐ نے اس کو کس طرح کھایا ۔ مبادا میں ترک سنت کامرتکب ہوجاؤں ۔ "
کامل بسطام در تقلید فرد اجتناب از خوردن خربوز کرد (آئینہ اقبال ، ص 9 ، 10)
ڈاکٹر صاحب اپنے دور کے ایسے عاشق صادق ہیں جس کا ثانی نہیں ملتا اسی لئے آپ کی منشااور چاہت یہ ہے کہ سبھی مسلمان عاشق رسول ؐ بنیں اور آپؐ کی سنتوں کے امین بنیں ۔ چنانچہ اس مضمون کو آپ ؒ ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں :
ہر کہ عشقِ مصطفیٰؐ سامانِ اوست بحر وبر درگوشئہ دامانِ اوست
علامہ صاحبؒ کو معلوم تھا کہ اگر مسلمانوں کے دل رسالت مآب کےجذبۂ عشق و محبت سے خالی ہو گئے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی نہ تو انہیں عظمت رفتہ واپس دلا سکتی ہے اور نہ ہی اصلاح و تجدید کی ہزاروں تحریکیں انہیں اپنی منزل مراد تک رسائی بخش سکتی ہیں۔ یہ محض خام خیالی نہیں بلکہ ایک اظہر من الشمس حقیقت ہے۔ مغربی استعمار کی اسی سازش کی طرف علامہ اقبال ؒنے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا۔
یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیںکبھی روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیلات اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
اتباع رسول ؐ کے بغیر محبت رسول کا تصور ممکن نہیں
اس ضمن میں ڈاکٹر علا مہ محمد اقبالؒ فرما تے ہیں" ہر وہ شخص جس کے دل کا سرما یہ آنحضورﷺ کا عشق ہے ، بلا شبہ وہ دنیا پر متصّرف ہے آنحضور ؐ کی اطاعت اللہ تعالی کی اطاعت ، آپؐ سے وفااللہ پاک سے وفا ،آپ ؐسے دوستی اللہ پاک سے دوستی اور آپؐ سے عشق اللہ تعالیٰ سے عشق قراردیا گیاہے ۔ چنا نچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (15) فرما دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت کر تے ہو تو میری اتبا ع کرو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کر ے گا۔"
آپ ؒ کے نزدیک عشق ومحبت ِ مصطفیٰ ایمان کا لازمی جزو ہے اور اتباعِ مصطفیٰ ؐ کے بغیر عشق و محبت کے معیار کو پانا ناممکن ہے ۔اس سلسلہ میں علا مہ اقبالؒ نے جاوید نا مہ میں بزبان حلا ّج حضور انورﷺکے دیدار سے مشر ف ہو نے کی نہا یت عمدہ توجیہ پیش کی ہے ،آپؒ فرما تے ہیں:
معنی دیدار آں آخر زما ں حکم او بر خویشتن کردن رواں
درجہاں زی چوں رسول ؐانس وجا ں تا چو او باشی قبول انس و جا ں
باز خود رابیں ہمیں دیدار اوست سنت او سرّے از اسرار اوست( کلیات اقبال ، اسرار خودی)
دنیا میں زندگی ایسے بسر کرو جیسے رسول خدا ﷺ کا اسوۂ حسنہ تم کو تلقین کر تا ہے۔ اگر تم ایسا کروگے تو تم کو جن و انس سب میں مقبولیت حاصل ہو جا ئےگی ۔ آپ ؐ کی سنت میں ڈوب کر خود شنا سی حاصل کرو ، یہی آپؐ کا دیدار ہے ۔ یاد رکھو کہ آپ کا اسوہ حسنہ اور آپکی سنت آپ ؐکے اسرا ر میں سے ہے ،الغر ض دعویٰ عشق اس وقت تک لا یعنی ہے جب تک محبو ب ﷺ کی اتباع نہ کی جا ئے ۔ایک سچے مومن کے لیے تقلید واتباع رسول کا اہتمام کر نا ازبس لازم ہے ۔ علا مہ اقبالؒ کی نظر میں حقیقی عشق رسو ل ﷺ کا معیار کیا ہے آئیے آپ کے کلام سے ایک اور مثال لیتے ہیں:
کیفیت ہا خیزد از صہبا ئے عشق ہست ہم تقلید از اسمائے عشق
کا مل بسطام ؒ در تقلید فرد اجتناب از خوردن خربوزہ کرد
عاشقی ؟ محکم شو از تقلید یار تا کمندِتو شود یزداں شکار
علا مہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ شراب ِعشق پی کر ایک انمول کیف و سرور حاصل ہو تا ہے ۔ مگر خیا ل رہے کہ تقلید واتباع عشق ہی کا آئینہ ہے ۔ حضر ت با یزید بسطامیؒ کی مثال یاد کروجیساکہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے ، آپؒ اتبا عِ رسول میں اس قد ر سرگرم تھے اور تقلید ِ نبوی ؐپر ایسے کاربند کہ آپ نے ساری عمر خربوزہ اس لیے نہیں کھا یا کہ آپ کو یہ معلوم نہ ہو سکا کہ نبی کریم نے یہ پھل کس طرح کھا یا تھا۔ اسی کامل و اکمل تقلید کا نا م تو عشق ہے ، تو اگر تم عشق کے دعویدار ہو تو محبوب کی تقلید میں پختہ ہو جا ؤ ۔ پھر تمہاری کمند میں وہ گرفت آجا ئے گی کہ وہ یزداں شکار بن جا ئے گی۔
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں
ملت اسلامیہ کی کامیابی کا راز
علامہ صاحب ؒ ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی کے لئے رسول ِ خدا کی ذات اقدس کو قابل تقلید اور واحد حل جانتے تھے آپ فرماتے ہیں:
" میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان میں ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی کے لئے رسول اکرم ؐ کی ذات اقدس ہی ہماری سب سے بڑی اور کار گر قوت ہو سکتی ہے ۔ مستقبل قریب میں جو حالات پیدا ہونے والے ہیں ان کے پیش نظر مسلمانان ہند کی تنظیم اشد لازمی ہے ۔ "(اقبال نامہ حصہ دوم ، ص 93)
بمنزل کوش مانندِ مہِ نو دریں نیلی فضاہر دم فزوں شو
مقام ِ خویش اگر خواہی دریں دیر بحق دل بند وراہِ مصطفی رو
اے مسلمانو ں تم نئے چاند کی طرح منزل کو پانے کی کوشش کرو اس نیلی فضا (آسمان ) میں ہر لمحہ بڑھتے رہو۔ اگرتم اس جہاں میں اپنا ( کھو یا ہوا )مقام پا ناچاہتے ہو تو اللہ سے دل لگا ؤ اور حضرت محمدﷺکے راستے پر چلو (اسوۂ حسنہ کو اختیار کرو )۔ یہی درحقیقت امت کے اتحاد کی کنجی ہے، امت کا احیاء وجود عشقِ مصطفےٰ ہے، اسی رشتہ سے ملت اسلامیہ قائم و دائم ہے۔ رموزِ بےخودی میں علامہ صاحبؒ فرماتے ہیں:
عشقِ او سرمایہ جمعیت است ہمچو خوں اندر عروق ملت است
عشق در جان و نسب درپیکر است رشتہ عشق از نسب محکم تر است
حضور کی حیات مبارکہ اقبالؒ کی نظر میں
علامہ صاحب ؒ کا ایمان تھا کہ حضور ؐ زندہ ہیں اور آج بھی مسلمان اسی طرح مستفید ہوسکتے جیسا کہ آج سے چودہ سو سال قبل صحابہ کرام استفادہ فرماتے تھے۔ اس کا اظہار آپؒ نے بدیں الفاظ فرمایا:
" میرا عقیدہ ہے کہ نبی کریمؐ زندہ ہیں اوراس زمانے کے لوگ بھی اسی طرح مستفیض ہوسکتے ہیں جس طرح صحابہ کرام ؓ ہوا کرتے تھے۔ لیکن اس زمانے میں تو اس قسم کے عقائد کا اظہار بھی اکثر دماغوں کو ناگوار ہوگا اس واسطے خاموش رہتا ہوں۔ "(اقبال نامہ حصہ دوم ، ص 317)
علامہ اقبال اور ناموس رسالت
6/اپریل 1929ء کو غازی علم الدین نے راج پال کو ہسپتال روڈ لاہور پر واقع اُس کی دکان میں گھس کر خنجر سےجہنم واصل کر دیا جس کے فوراً بعد غازی صاحب نے اقرا ر جرم کرلیا۔جس پر سیشن کورٹ نے 22/ مئی 1929ء کو غازی علم دین کو سزائے موت سنا دی اور 31/ اکتوبر 1929ء کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا ۔غازی صاحب ؒ کے جسد خاکی کو علامہ اقبال ؒاور سیّد دیدار علی شاہؒ جیسے بزرگوں نے اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا۔ جب غازی صاحب ؒ کو لحد میں اُتار دیا گیا تو مولانا ظفر علی خان نے چیخ کر کہا کہ "کاش ! یہ مقام آج مجھے نصیب ہوتا۔" اور اسی موقع اقبالؒ کے منہ سے بھی نکلا کہ" ہم تو دیکھتے ہی رہ گئے اور ترکھانوں کا لڑکا بازی لے گیا۔"
1934 ء میں ایک اوربد بخت شاتم رسول ؐ نتھو رام نے گستاخی کی جس پر ہزارہ کے ایک نوجوان غازی عبدالقیوم صاحب ؒ نے اسے واصل جہنم کیا ۔بعد ازاں جس پر آپ کو بھی پھانسی کی سزا ہوئی ،کراچی کے مسلمانوں کا ایک وفد لاہور آیا اور علامہ اقبالؒ سے درخواست کی کہ غازی عبدالقیوم کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کروایا جائے۔ علامہ صاحبؒ نے کچھ سوچا اور پھر کہا کہ اگر عبدالقیوم خود کہتا ہے کہ اُس نے شہادت خریدی ہے تو میں اُس کے اجر و ثواب کی راہ میں رکاوٹ کیوں بنوں؟ اسی پس منظر میں علامہ اقبال نے فی البدیع یہ اشعار پڑھے:
نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمان غیور موت کیا شے ہے، فقط عالم معنی کا سفر
ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ قدر و قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر
آہ! اے مرد مسلماں تجھے کیا یاد نہیں؟ حرف 'لا تدع مع اللہ الھاً آخر'
محبت رسول میں آخری ایام
علامہ اقبال ؒ عشق رسول میں عجیب نازک خیالیوں کامظہر تھے کہ زندگی کے آخری ایام میں اکثر و بیشتر سوچ و بچار میں مستغرق رہتے تھے۔حکیم احمد شجاع اس تناظر میں رقم طراز ہیں کہ :
" علامہ اقبال ؒ کو بہت زیادہ فکر مند ، مغموم اور بے چین پایا تو گھبراکر دریافت کیا ۔ خیریت تو ہے ، آپ آج کل خلاف معمول بہت زیادہ مضطرب اور پریشان نظر آتے ہیں؟ علامہ صاحب ؒ نے خاص انداز میں نظریں اوپر اٹھائیں اور غم انگیز لہجے میں فرمایا: احمد شجاع ! یہ سوچ کر میں اکثر مضطرب اور پریشان ہوجاتا ہوں کہ کہیں میری عمر رسول اللہ سے زیادہ نہ ہوجائے۔"(روزگار فقیر جلد دوم، ص72)
MashaAllah kia bat he Qalandar-e-Lahori ki
Thanks
Mashallah mashallah
Bahut khoob
Thanks
masha allah zabar10
Thanks
!جزاک اللہ سر
بہت عمدہ کام کر رہے ہیں آپ…اللہ پاک مزید ہمت دے..آمین